سچی کہانی، جھوٹی عدالت


ایک مُلک میں ایک بزرگ شخص رہتا تھا وہ اپنی زوجہ اور تین جوان بیٹیوں کے ساتھ ایک کرائے کے مکان میں رہتا تھا ، اس کا اپنا 5 مرلے کا ذاتی مکان تھا جس پر کسی نے کوتوال شہر کی مدد سے قبضہ کر لیا تھا۔

یہ بزرگ قاضی کی عدالت میں چلے گئے اور قاضی سے شکایت کی ، جب وہ قاضی کے پاس گیا تو اس کی عمر 50 برس تھی ، 20 سال تک قاضی کوئی فیصلہ نہیں کر پایا ، اس دوران اس بزرگ کی جمع پونجی بھی ختم ہو گئی اس کی بچیوں کی شادی کی عمر بھی نکل چکی تھی ، اب یہ بوڑھا اپنی ذہنی صلاحیت کو بھی قابو نہیں کر پایا اور ایک دن قاضی کی عدالت میں پھٹ پڑا اور قاضی سے بلند آواز میں کہہ دیا کہ اگر مجھے انصاف نہیں دے سکتے تو مجھے پھانسی چڑھا دو.

اب میں تمہارے پاس آ آ کر تھک گیا ہوں اب تو میری جیب میں اتنی رقم بھی نہیں کہ میں تمہارے منشی کو دیکر تمہارا دیدار کر سکوں۔

قاضی کو بہت غصہ آیا اور کوتوال شہر سے کہا اسے ابھی توہین عدالت کے تحت گرفتار کرکے اس پر مقدمہ بناؤ حکم پر عمل ہوا اور عدالت نے انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے صرف تین دن میں توہین عدالت کا فیصلہ سنایا اور یوں اس ستر سالہ بزرگ کو 20 سال قید با مشقت سنا دی گئی۔

مہذب معاشروں میں انصاف یوں بھی ہوتا ہے اور اتنا تیز کے تین دن میں ساری کاروائی اور قانونی تقاضے پورے ہو جاتے ہیں 

آج اس کی تینوں بچیاں کسی نا کسی کوٹھے پر بیٹھی گاہک کا انتظار کر رہی ہونگی۔

نوٹ ۔۔۔ تصویر اسی بزرگ کی ہے۔


Post a Comment

0 Comments