سعودی عرب میں قانون کیوں تبدیل کیے جارہے ہیں؟


 اس وقت سعودیہ کی اکانومی 80 فیصد تیل کی پیداوار پر کھڑی ہے۔ اسٹاک ہوم کی ایک رپورٹ کے مطابق اگر سعودی عرب سے تیل نکالنے کی موجودہ شرح برقرار رہی تو اگلے 70 سال میں ذخائر صفر ہوجائیں گے۔ ایسے میں 80 فیصد عرب خطے پر قائم مسلم دنیا ‏کی سپرپاور دھڑم سے گر جائے گی۔ امریکی تعلیم یافتہ محمد بن سلمان نے 2030 تک سعودی عرب کو متحدہ عرب امارات کی طرز پر استوار کرنے کا پلان ترتیب دیا ہے تاکہ ملک میں تیل کے علاوہ بھی روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔ اس سلسلے میں مغرب کے مطابق جو قوانین سخت خیال کئے جاتے ہیں ان میں ‏مرحلہ وار کمی کی جارہی ہے۔ مثلاً 

1۔ خواتین کو ڈرائیونگ لائسنس جاری کئے گئے۔

2۔ میوزک کنسرٹ کی اجازت دے دی گئی۔

3۔ ریسلنگ کے مقابلے منعقد ہوئے۔

4۔ کاروباری سرگرمیوں کو نماز کے اوقات میں بند کرنے کی شرط ختم کر دی گئی۔

5۔ جوڈیشل سسٹم کو ازسرِ نو مرتب کیا جارہا ہے۔

ان تمام اقدامات سے صاف پتہ چلتا ہے کہ سعودی عرب نے لبرل ازم کی جانب سفر شروع کردیا ہے۔ وہ خطہ جو صدیوں تک ریگستان تھا مگر اسلامی روایات کا پاسبان بنا رہا۔ صلے میں تیل کی دولت نے مالا مال کردیا۔ اب اللہ تعالیٰ کو وحدہ لاشریک کہنےوالوں کا تقوی کا لیول کمزور پڑگیا ہے۔ مستقبل کا پتہ صرف اللہ تعالیٰ کو ‏ہے پر یقین اور تلقین کرنیوالے اب مستقبل کے خوف سے انہی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر مغرب کے بے ہیجان کلچر کو اپنا رہے ہیں۔ یہ سلسلہ یقینًا وہیں پہنچے گا جہاں ہر طرف کفر ہی کفر ہوگا اور پھر وقت کے امام کا ظہور ہوگا۔

Post a Comment

0 Comments