قائداعظمؒ کے قریبی ساتھی سردار عبد الرب نشتر مرحوم کی زندگی کا ایک حسین ورق


 1950 کی بات ہے۔ رات کو ایک شخص ساہیوال میں بس سے اترا اس وقت اڈے پر صرف ایک ٹانگہ کھڑا تھا۔ اور اس میں سواریاں پوری تھیں۔ اس شخص نے ٹانگے والے سے درخواست کی کہ اسے بھی ساتھ بٹھا لیا جائے۔ ٹانگے والے نے انکار کر دیا، کہ قانون سخت ہے اور اس کی اجازت نہیں اور راستے میں پولیس کا سپاہی ہے وہ جرمانہ کرے گا۔ باقی سواریوں نے زور دیا کہ بٹھا لو، بعد میں کوئی سواری نہیں ملے گی۔ اس نے بٹھا لیا۔ آگے پولیس والے نے روک لیا اور چالان کر دیا۔،اس سواری نے منزل پہ پہنچ کر ٹانگے والے سے کہا کہ صبح اسی جگہ آ جانا تمہارا مسلہ حل کروا دونگا۔ دوسرے دن ٹانگے والا وہاں پہنچا تو دیکھا کہ سرکار کے کافی لوگ وہاں موجود ہیں۔ اس شخص نے ٹانگے والے کو بلایا۔ اور وہاں موجود کمشنر سے کہا کہ اس ٹانگے والے کا کوئی قصور نہیں۔ اس کا جرمانہ مجھ سے وصول کیا جائے.

یہ شخص گورنر پنجاب سردار عبدالرب نشتر تھے.

 تحریک پاکستان کا مجاھد، اسلام کا بطل جلیل، اور قائداعظم کا عظیم سپاہی۔ ایک باکردار زندگی، پاکیزہ سیاست، بندگان خدا کی بے لوث خدمت، نشتر کی زندگی ان لوگوں کے لئے مشعل راہ ہے جو سیاست کو خلق خدا کی خدمت کے علاوہ کسی اور نام سے نہیں جانتے۔ قائد کے یہ دست راست 13 جون 1899ء کو پشاور میں پیدا ہوئے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد یوں قائد کی محبت میں مبتلا ہوئے کہ پھر کسی اور طرف نہیں دیکھا۔ آپ ان چند لوگوں میں سے تھے جن پر قائد کو بے انتہا اعتماد تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تحریک پاکستان آپ کے تذکرے کے بغیر نا مکمل ہے۔ قیام پاکستان کے بعد بھی ملک و ملت کے لئے آپ کی گرانقدر خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان بننے کے بعد آپ پہلی کابینہ میں بطور وزیر مواصلات شامل ہوئے۔ دوستوں کو بتاتے چلیں کہ یہ وہی کابینہ ہے جس نے نشتر کی تحریک پر میانوالی ھائیڈرو پاور پراجیکٹ (کالا باغ ڈیم) کی منظوری دی۔ افسوس آج 70 سال گزرنے کے بعد بھی اس منصوبے کا آغاز نہ ہو سکا۔ آپ پنجاب کے پہلے مسلمان گورنر تھے۔  

دستور ساز اسمبلی میں سب سے زیادہ کام نشتر صاحب نے کیا۔ وہ اسلام اور پاکستان سے عشق کر تے تھے ۔ وہ’’ قرار داد مقاصد‘‘ کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ قرار دیتے تھے۔ ایک مرحلہ آیا کہ دستور ساز اسمبلی کے اراکین میں اس بات پر سخت اختلاف پیدا ہوگیا کہ آیا پاکستان کے صدر کے لیے مسلمان ہو نے کی شرط لگانا ضروری ہے ۔ دونوں طرف سے زوردارتقریریں ہوئیں ۔ معاملہ طول پکڑ گیا ۔ اس نازک موقع پر نشتر صاحب کی جرات مندانہ اور ایمان افروز تقریر نے رنگ بدل دیا اور صدر پاکستان کے لئے مسلمان ہونا ضروری قرار پایا۔ 

الطاف حسن قرشی لکھتے ہیں کہ اگر نشتر صاحب کے زہن کے لوگ مسلم لیگ کو میسر نہ آتے تو تحریک پاکستان کا مزاج یقینا مختلف ہوتا۔ تحریک پاکستان کو عام مسلمانوں کے دل کی آواز بنا دینے میں نشتر صاحب کا بڑا حصہ ہے۔ وہ گاوں گاوں گئے، شہروں اور قصبوں میں لاکھوں مسلمانوں سے خطاب کیا اور ایسی سحر انگیز تقریریں کیں کہ سامعین دل تھام کر رہ گئے۔ انہوں نے اپنا سب کچھ پاکستان کے لئے نچھاور کر دینے کا عہد کر لیا تھا۔ 


نشتر مولانا محمد علی جوھر سے بہت محبت کرتے تھے اور مولانا بھی نشتر کو بیٹوں کی طرح چاھتے تھے اور پیار سے نشتر کو سامری کہا کرتے تھے۔ نشتر نے مولانا سے بہت کچھ سیکھا لیکن کبھی کبھی دوران بحث الجھ بھی پڑتے تھے۔ مولانا کا خیال تھا کہ مسلم لیگ کی پالیسی اعتدال پسند نہ تھی۔ لیکن ایک دن نشتر نے جوھر کے ساتھ مسلم لیگ کے حق میں بحث چھیڑ دی اور مولانا کو محسوس ہوگیا کہ وہ لاجواب ہو گئے ہیں۔ فورا اٹھے، نشتر کی گردن پر بوسہ دیا اور کہنے لگے سامری آج تو تو نے ہمیں بھی پچھاڑ دیا ہے۔ مولانا جوھر کو قائد اعظم کے قریب لانے والی شخصیت عبدالرب نشتر تھے.


سید قاسم نے اپنی کتاب میں غالب نشتر کے حوالے سے سردار عبدالرب نشتر کی وضع داری اور شرافت اور شائستگی کا ایک واقعہ بیان کیا ہے۔ کہتے ہیں جب محترمہ فاطمہ جناح لاھور تشریف لائیں تو وقت سے بہت پہلے پلیٹ فارم پر جا کھڑے ہوئے۔ جب مادر ملت باہر تشریف لائیں تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئیں کہ گورنر اسٹیشن پر استقبال کے لیے خود موجود ہیں ۔وہ مصر تھے کہ مادر ملت گورنر ہاؤس میں قیام کر یں۔ مادر ملت کے چہرے سے جب انکار کا تاثر ملا تو سردار نشتر نے انتہائی اپنائیت اور خلوص سے کہا: ’’ مادرملت! میں صرف گورنر نہیں سر دار نشتر بھی تو ہوں‘‘ اور یوں ان کے خلوص نے مادر ملت کو گورنر ہاؤس میں قیام کر نے پر مجبور کر دیا۔

شعر کہتے تھے اور نشتر تخلص کرتے تھے۔ گورنری کے دوران میں سر شام مال روڈ پر پیدل نکل جاتے۔ راستے میں چراغ حسن حسرت اور مولانا صلاح الدین احمد مل جاتے اور شعر و ادب پر گفتگو چل نکلتی۔ بہت خوبصورت نعت لکھتے تھے۔ آپ کا نعتیہ کلام محبت رسول میں ڈوبا ہوا ہے۔ 


اتنا شدید غم کہ احساس غم نہیں

کیسے کہوں کہ آپ کا مجھ پر کرم نہیں۔ 


قائد ملت خان لیاقت علی خان کی شھادت کے بعد وزیر اعظم کے عہدے کےلئے جو نام پیش کئے گئے ان میں نشتر کا نام سر فہرست تھا۔ اسکندر مرزا جو اس دور کی بیوروکریسی میں خاص حیثیت رکھتا تھا، اس نے صرف آپ کی حد سے زیادہ اسلام پسندی کی وجہ سے آپ کا نام منظور نہ ہونے دیا۔ 

ملت کا یہ عظیم سپوت جب 1957ء کے آخر میں عارضہ قلب کے باعث ھسپتال میں داخل ہوا تو ھسپتال کا بل ادا کرنے اور ادویات خریدنے کے پیسے نہ تھے۔ 14 فروری 1958ء کو برصغیر کا یہ عظیم راہنما اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ 

عوام الناس کی خواہش کے بر عکس اس وقت کے وزیر اعظم فیروز خان نون نے آپ کو قائد کے پہلو میں دفن کرنے کی بھرپور مخالفت کی لیکن عوام کے دباو اور مادر ملت کی مداخلت کے سامنے فیروز خان نون کی نہ چل سکی اور آپ کو مزار قائد کے احاطہ میں سپردخاک کیا گیا۔ نشتر نے زندگی بھر جناح سے محبت کی اور مرنے کے بعد بھی اس کہ پہلو میں جا سویا۔ 

دمکتے ہیں فضاوں میں تیرے نقش قدم اب بھی  

مورخ کی جبیں فرط عقیدت سے ہے خم اب بھی۔

(تحریر: سہیل یوسف)

Post a Comment

1 Comments